ابھی گزشتہ دنوں میں لاہور کے معروف مال روڈ پر جی پی او چوک کے اشارے پر کھڑا تھا‘ میں وہاں بیس منٹ کھڑا رہا‘ گاڑیوں کا ہجوم تھا‘ بار بار ٹریفک اشارہ بند ہورہا تھا‘ کھل رہا تھا‘ گاڑیاں آجا رہی تھیں اور میں بیوقوفوں کی طرح وہاں کھڑا کسی سائیکل سوار کو ڈھونڈ رہا تھا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہاتھ پائوں اس لئے دیے ہیں کہ وہ ان کاصحیح استعمال کرے اور انہیں بے کار چھوڑ کر تن آسانی اور اضمحلال کا شکار نہ بنے لیکن جدید صنعتی زندگی نے لوگوں کو خاص طور پر شہروں میں رہنے والوں کو اس قدر آرام طلب بنادیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ پائوں کا کم سے کم استعمال کرنا پسند کرتے ہیں حالانکہ اس میں نہ صرف نقصانات ہیں بلکہ بعض صورتوں میں صرف بے جا سے گھریلو بجٹ پر بھی بار پڑتا ہے شہری زندگی میں بڑھتے ہوئے شہرائو کے ساتھ ساتھ لوگ ہاتھوں کا تواب بھی بہرحال استعمال کرتے ہیں لیکن ان میں ایسے سہل انگار یا فضول خرچ لوگوں کی تعداد دن بہ دن زیادہ ہوتی جارہی ہے جو جدید سفری اور ٹرانسپورٹ سہولتوں کی آڑ میں پیدل چلنے سے بچتے ہیں یا پھر ان کی پیدل چلنے کی عادت بھی چھوٹ گئی ہے۔ وہ تھوڑے فاصلے تک جانے کیلئے یا سفر کرنے کیلئے بھی کار‘ سکوٹر یا بس کا سہارا لیتے ہیں اس کے نتیجے میں نہ صرف ان کا بہت سا وقت ضائع جاتا ہے بلکہ وہ کافی رقم بلا ضرورت خرچ کرکے مالی نقصان بھی اٹھاتے ہیں پھر اس طرح سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایسی چہل قدمی یا کم فاصلے تک چل کر منزل مقصود تک پہنچنے سے گریز کی صورت میں لوگ پیدل چلنے کے تمام فوائد سے بھی محروم رہتے ہیں۔ شہروں میں لوگ کاروں‘ بسوں اور سکوٹروں کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر انہیں پہنچنے کی جلدی نہ بھی ہو اور ان کے پاس کافی وقت ہو اور فاصلہ بھی زیادہ نہ ہو تب بھی وہ پیدل چلنے سےبچتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کے پاس اپنا ذاتی سکوٹر یا کار نہ ہوتو وہ بس وغیرہ سے سفر کرتے ہیں ذاتی یا پبلک ٹرانسپورٹ دونوں صورتوں میں لوگوں کو پٹرول کا خرچ یا کرایہ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ لوگوں کیلئے مطلوبہ مقام تک بغیر پیدل چلنے‘ ٹانگوں اور پائوں کے استعمال کے تمام صحی فوائد سے بھرپور ایک کم خرچ‘ باکفایت‘ آرام دہ‘ محفوظ اور ایک طرح تفریحی لذت دینے والا عمدہ ذریعہ ’’سائیکل ‘‘سواری ہے‘ حد افسوس یہ ہے کہ شہروں میں ماضی کی اس مقبول عام سواری کی مانگ اب تیزی سے ختم ہورہی ہے یا تو اس کا سبب سہل پسندی اور فیشن پرستی ہے یا پھر شہروں میں بڑھتی ہوئی ٹریفک میں سائیکل چلانے اور اس سے سفر کرنے کیلئے مناسب راستے باقی نہیں رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں میں لاہور کے معروف مال روڈ پر جی پی او چوک کے اشارے پر کھڑا تھا‘ میں وہاں بیس منٹ کھڑا رہا‘ گاڑیوں کا ہجوم تھا‘ بار بار ٹریفک اشارہ بند ہورہا تھا‘ کھل رہا تھا‘ گاڑیاں آجا رہی تھیں اور میں بیوقوفوں کی طرح وہاں کھڑا کسی سائیکل سوار کو ڈھونڈ رہا تھا کہ شاید اب اس ہجوم میں سے کوئی سائیکل سوار گزرے گا مگر مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ ہم نے سائیکل کو یکسر مسترد کردیا ہے۔حالانکہ میں خود دیکھا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے کہ90ء کی دہائی میں دوپہر کے وقت لاہور مال روڈ پر صبح اور دوپہر کے اوقات میں ایک سائیڈ پر صرف سائیکل سوار ہی نظر آتے تھے اور ہر گھر میں سائیکل ضرور ہوتا تھا۔ بہرحال ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں ماہرین طب اور ماحول کی ہدایت پر سائیکل سواری کارحجان پھر سے بڑھ رہا ہے وہاں لوگ اس سواری کو تفریحی سفر‘ سیر‘ کھیل اور کم فاصلوں کے سفر کیلئے استعمال کررہے ہیں اس کی ایک مثال ہالینڈ ہے جہاں بہت سےلوگ کم فاصلوں تک پہنچنے کیلئے کاروں اور بسوں کی بجائے سائیکل سواری کررہے ہیں۔ جانی اور مالی فوائد:یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ شہروںنے گنجان آبادی والے علاقوں میں کئی طرح کے سماجی اور صحت کے مسائل کھڑے کردیے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ کاروں‘ آٹو وہیل اور پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی ٹریفک سے پھیلنے والا مضر صحت کثیف دھواں اور گیس ہے جو فضا کو آلودہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے سائیکل کا استعمال کم ہوا ہے بڑے شہروں میں کاروں‘ بسوں‘ سکوٹروں اور ڈیزل یا پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال بڑھا ہے۔ ہم نے مانا کہ سائیکل سواری طویل فاصلوں تک پہنچنے میں مانع ہوتی ہے اور اس میں وقت اور محنت بہت صرف ہوتی ہے لیکن یہ شہروں میں اب بھی کم فاصلوں تک پہنچنے یا جب وقت ہوتو ذرا طویل فاصلوں تک پہنچنے کا ایک بہت عمدہ اور مفید ذریعہ ہے۔ پٹرول کی بڑھتی ہوئی گرانی نے تو اسے اور بھی پرکشش بنادیا ہے‘ سائیکل چلانے میں ظاہر ہے کہ کوئی گیس یا پٹرول خرچ نہیں ہوتا البتہ صرف انسانی محنت سے کام چلتا ہے اس لئے ماہرین طب اور معالجین کی متفقہ رائے ہے کہ سائیکل سواری کو پھر سے شہروں میں مقبول بنانا چاہئے۔ کئی ممالک مثلاً ہالینڈ‘ جاپان‘ امریکہ اور فرانس میں سائیکل سواری کو مقبول بنانے کیلئے کئی دلچسپ طریقے اختیار کئے گئے ہیں۔ ان معالجین اور میڈیکل ریسرچ سے
متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ سائیکل چلانے سے موٹاپے دوران خون کی بیماریوں امراض قلب اور ہاضمے کی خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے جو بیشتر صورتوں میں پیدل نہ چلنے یا جسمانی محنت نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ شہروں میں ڈیزل اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی مضر صحت کثافت کا بھی سدباب کرسکتی ہے یہ شہروں کی سڑکوں‘ چوکوں اور پلوں پر مصروف اوقات یعنی صبح اور شام میں ٹریفک میں تکلیف دہ رکاوٹوں سے نجات میں بھی مددگار ہوسکتی ہے‘ ان ماہرین کی رائے میں کاروں اور بسوں وغیرہ پر زیادہ انحصار سے نہ صرف پٹرول کی گرانی بڑھتی ہے جو عام آدمی کی جیب پر بار ہے بلکہ اس سے پیدل چلنے کی لطیف اور مفید عادت بھی چھٹ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں سیر تفریح کم فاصلے تک جانے اور کھیل وغیرہ کیلئے سائیکل ایک عمدہ اور مفید ذریعہ ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری لوگ اس طرح اپنی ٹانگوں اورپائوں کے عضلات کا پھر سے وہ لازمی‘ فطری اور مفید صحت استعمال شروع کردیں گے جس سے کاروں سکوٹروں یا بسوں نے انہیں محروم کردیا ہے۔ چین کے لیڈروں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ سائیکل چلانا دوڑنے اور پیراکی کی طرح نوجوانوں کیلئے ایک مفید شغل ہے۔ یہ سیر اور سفر کو آرام دہ‘ لطیف اور کاروں سے سفر کے برعکس اعصابی تنائو سے بچاتی ہے کاروں یا سکوٹروں سے سفر کرنے والے لوگ اکثر اعصابی تنائو اورر تھکن یا گرواٹ میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ جبکہ سائیکل سواری نہ صرف ایسی علامتوں سے بچاتی ہے بلکہ ان کا علاج بھی کرسکتی ہے اگر کہیں بروقت پہنچنے کی وجہ سے جلدی ہوتو سائیکل سوار اپنی صحت کے فائدے کی خاطر اور فضول خرچی سے بچنے کیلئے ذرا پہلے گھر سے نکل سکتا ہے۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ ایک صحت مند اور درست دماغ ایک صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے۔ ورجینیا یونیورسٹی کے ماہر نفسیات رابرٹ برائون کی رائے ہے کہ سائیکل چلانا جسمانی اضمحلال کا عمدہ علاج ہے۔ اس سے دماغ کے عضلات میں کیمیائی تبدیلی واقع ہوتی ہے جس سے شریانوں اور اعصاب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ سائیکل چلانے والوں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کیلئے خصوصی راستے اور سڑکیں بنائی جائیں جہاں وہ زیادہ آرام سے سفر کرسکیں۔ کاروں‘ سکوٹروں اور بسوں سے سفر میں خرچ کے علاوہ ایک اہم اور سنگین خطرہ ٹریفک کے حادثات کا ہونا ہے جو گنجان آباد شہروں میں بہت بڑھ گئے ہیں سائیکل سواری کی صورت میں تیز رفتاری اور حادثات خطرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سائیکل چلانا بچوں‘ بوڑھوں‘ جوانوں اور عورتوں اور مردوں سب کیلئےپر لطف آرام دہ اور باکفایت ذریعہ سفر ہوسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں